
بسم الله الرحمن الرحيم
علم و دانش کا سفر کبھی رکتا نہیں، اور نہ ہی تحقیق کی ندی کبھی سوکھتی ہے۔الایضاح کا یہ تازہ شمارہ (مجلد 43 – شمارہ 1) اسی علمی تسلسل کا ایک روشن سنگِ میل ہے جو امتِ مسلمہ کی فکری روایت اور عصری تقاضوں کے سنگم پر اپنی تازگی اور گہرائی سے ایک بار پھر روشنی بکھیرتا ہے۔ اس شمارے میں بھی مختلف مکاتبِ فکر، بین الاقوامی جامعات اور علمی مراکز سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم کی قیمتی نگارشات شامل ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے میدان میں سنجیدہ علمی مکالمہ کو آگے بڑھایا ہے۔
عہد نبوی ﷺ میں نزولِ وحی کا جو تصور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں محفوظ ہے، اس پر امام عبدالرحمن بن فیصل یونیورسٹی، دمام، سعودی عرب کے پروفیسر ایمن محمود مہدی اور ایم فل محقق احمد أحیدب نے تحلیلی نگاہ ڈالی ہے، جو روایتِ حدیث کی فنی باریکیوں اور روحانی جہات دونوں کو محیط ہے۔ اسی ضمن میں تیونس کے اسلامی علوم کے ماہر پروفیسر صادق کورشید نے امام قاضی عیاض کی شہرۂ آفاق کتاب الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ میں موجود حدیثی منہج کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے، جو سنت فہمی میں ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ اس موضوع پر اُن کے مقالے کا پہلا حصہ اسی مجلہ الایضاح کے دسمبر 2021 کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے، جب کہ یہ موجودہ حصہ اس تحقیقی سلسلے کا تسلسل ہے۔
الجزائر کے شہر غلیزان میں واقع جمعیۃ العلماء المسلمین الجزائریین کے قرآنی مدارس کے کردار پر محترمہ سکومی فاطمہ نے اپنی تحقیق میں روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح یہ ادارے نہ صرف دینی ورثے کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں بلکہ قومی و تہذیبی شناخت کے امین بھی ہیں۔ اردن کی الرایک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس میں شعبۂ سوشیالوجی کی سربراہ ڈاکٹر فاتن شاہر العمرو نے نباتاتی نظام میں اللہ تعالیٰ کی صنعتِ کاملہ کو موضوعِ تحقیق بنایا، جب کہ ڈاکٹر اشرف محمد بطوش (مطہ یونیورسٹی، اردن) نے توانائی اور پانی کے محکمے کی نمائندگی کرتے ہوئے اس سائنسی پہلو کو مزید وسعت بخشی ہے۔
اسلامی یونیورسٹی غزہ، فلسطین میں کلیہ اصول الدین کے شعبۂ عقیدہ و مقارنہ ادیان کے سربراہ ڈاکٹر محمد مصطفی الجعدی نے فلسفۂ کتابِ مقدس اور بیماریوں سے متعلق عیسائی لاهوتی تصورات پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے، جو تقابلی مذاہب کے جدید مباحث میں ایک مؤثر اضافہ ہے۔ مصر کی منیا یونیورسٹی کے عبد اللہ محمد عمر اعظم نے عبد الوہاب عزام کی فکری وراثت پر تحقیقی تجزیہ پیش کر کے جدید اسلامی فکر اور تہذیبی روح کے باہمی ربط کو نکھارا ہے۔
امریکہ کی الحکمۃ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ہدایت اللہ احمد شاش نے ایک بار پھر معاصر مسلم نوجوانوں کو درپیش شناختی چیلنجز پر اپنی قلمی توجہ مرکوز کی ہے، جو آج کی نسل کو فکری اطمینان اور تہذیبی شعور فراہم کرتی ہے۔ اسی تناظر میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی فیکلٹی آف عربی سے وابستہ دو محققین، محترمہ فوزیہ میر تاج اور محترمہ نرگس نذیر نے عربی نحو میں عمدہ اور فضلہ کے باہمی تعلق کو گہرائی سے پرکھا ہے۔
پاکستان کے خیبر پختونخواہ میں واقع قرتبہ یونیورسٹی (پشاور) کے شعبۂ اسلامیات سے وابستہ پی ایچ ڈی محقق عبدالوحید خان، اسسٹنٹ پروفیسر مقدس اللہ اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ایم فل اسکالر عامر عزیز نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی سماجی فکر کی روشنی میں ایک بہتر معیارِ زندگی کے فکری و عملی مظاہر پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، جو اسلامی تہذیب کے اصلاحی رجحانات کا آئینہ دار ہے۔
ادھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ بین المذاہب مطالعہ سے وابستہ لیکچرر حسن بیگ اور جی سی ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کی ایم فل اسکالر حفصہ مقصود نے قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں بین المذاہب تعلقات کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا ہے، جو عصرِ حاضر میں فہمِ قرآن کی عالمی افادیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ماحولیاتی علوم اور قرآن کے مابین تعلق کو یونیورسٹی آف چناب کی ایم فل اسکالر عائشہ اورکزئی نے جس بصیرت سے پیش کیا ہے، وہ قرآنی تعلیمات کی ہمہ گیری اور عصر حاضر سے ہم آہنگی کی واضح دلیل ہے۔
یہ تمام مقالات اس امر کا ثبوت ہیں کہ علمی دنیا میں الایضاح ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں مختلف مسالک، ثقافتوں اور جہات سے تعلق رکھنے والے محققین یکجا ہو کر دین، علم اور تہذیب کی خدمت کرتے ہیں۔ ہم تمام اہل قلم کو ان کی کاوشوں پر مبارک باد پیش کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اس مجلہ کو علم و ہدایت کا منارہ بنائے رکھے۔
والسلام